Four-verse poetry of Hazrat Khwaja Bahauddin Naqshbandi Bukhari (quddisa sirruhu), with Urdu translation and commentary by Muhammad Sadiq Qusoori.
Published by Al-Madinah Publications, Lahore, Pakistan. June 1997
Digitized by Maktabah Mujaddidiyah (www.maktabah.org) 2013
Download PDF (28MB)
{Jscribd document_id:=191672405 access_key:=key-2g92x2fj0tbs1bwczepu mode=scroll}
کتاب سے کچھ اقتباسات
خواجہ حافظ شیرازی اور حضرت خواجہ نقشبند بخاری قدس سرہ
لسان الغیب حضرت خواجہ حافظ شیرازی (۱۳۹۰ھ) نہ صرف ایران کے بہت بڑے شاعر ہیں، جن کے افکار عالم اسلام کے صوفیہ کرام کو مرغوب و محبوب ہیں۔ بلکہ وہ خود ایک عظیم المرتبت ولی ہیں۔ انہوں نے جب شاہ نقشبند (۱۳۸۹ھ) کی تابانیاں دیکھیں اور ان کی ضوریزیاں نظروں میں آئیں تو عقیدت کے پھول ان کی سرکار والاتبار میں یوں پیش فرمائے۔
توتیائی چشم سازم خاک پائی نقشبند
تابیابم سر حق از لطف سائی نقشبند
رو بدرگاہ بہاؤ الدین نظر کن زانکہ ھست
نہ فلک مانند دربان در سرائی نقشبند
مشکلات ماھمہ ھرگز نیاید در عدد
المدد یا خواجہ مشکلکشائے نقشبند
ترجمہ: میں تو شاہ نقشبند کی خاک پا کو اپنی آنھوں کا سرمہ بناتا ہوں۔ اس عمل کا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ کریم کے اسرار حضرت خواجہ نقشبند کے لطف و کرم سے پالوں گا۔ اے مخاطب! تو جاکر درگاہ بہاؤ الدین نقشبند کی زیارت کر۔ تجھے پتہ چل جائے گا کہ نو آسمان نقشبند کے در اقدس پر دربان بنے ہوئے ہیں۔ ہماری مشکلات تو شمار سے باہر ہیں۔ (اے بندہ نواز خواجہ) شاہ نقشبند آپ مشکل کشا ہیں، مدد فرما کر ان ساری مشکلات کو دور فرما دیں۔
”یا“ کے لفظ سے الرجک ہونے والے دور حاضر کی تخلیق ہیں۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ لسان الغیب حافظ شیرازی ”یا خواجہ“ کے مقدس الفاظ سے سیدنا نقشبند کو عرض کررہے ہیں۔ (اور سرتاجِ اولیاء سیدنا علی المرتضیٰ کو مشکل کشا کہنے سے منع کرنے والے دیکھیں کہ حافظ شیرازی تو شاہِ نقشبند کو بھی مشکل کشا کہہ رہے ہیں)۔
رباعی بحضور سیدنا حیدر کرار رضی اللہ عنہ
اے شیر خدا امیر حیدر فتحی
وی قلعہ کشائی در خیبر فتحی
درھائی امید بر رخم بستہ شدہ
اے صاحب ذوالفقار و قنبر فتحی
ترجمہ: ”اے خدا کے شیر! اے امیر المومنین حیدر! کشائش و فتح کا طالب ہوں۔ اور اے خیبر کے قلعے کے دروازے کھولنے والے، میں بھی فتح کا طالب ہوں۔ کیونکہ امید کے دروازے میرے چہرے کے سامنے بھی بند ہوچکے ہیں۔ اے ذوالفقار تلوار اور قنبر غلام کے آقا مجھے بھی فتح و نصرت سے ہمکنار فرمادے۔“